تاج المآثر: صدر
الدین حسن نظامی کی شاہکار تصنیف
ہندوستان میں تاریخ نویسي سلطنت عہدميں فارسی زبان ميں شروع
ہوئی ۔ اہم و مستند تاریخی کتابیں مثلاٗ طبقات ناصری، تاج الماثر ، خزائن الفتوح،
تاریخ مبارک شاہی ، فتوحات السلاطین،
تاریخ الفتوح، فتوحات فیروز شاہی وغیرہ
اسی عہد کے شاہکار تصانیف ہیں۔
تاج المآثر تالیف صدرالدین حسن بن نظامی کی اوایل ھند عہد وسطی کی مستند کتاب ہے۔ اور اس کتاب میں
شامل تاریخی واقعات سلطان قطب الدین ایبک و سلطان التمش کے ہیں۔مصنف تاج المآثر
حسن بن نظامی ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ یہ تاریخی لحاظ سے مشہور شہروں
میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی شہر میں عمر خیام و شیخ فریدالدین عطار کی آرامگاہ
ہے۔مصنف تاج المآثر جوانی کی عمر میں ترک وطن کیا، اس وجہ سے ایران میں داخلی
جنگیں تھیں۔ انہوں نے ترک وطن کرکے ہندوستان میں سکونت اختیار کرلی۔ اس زمانہ میں سلطان قطب الدین ایبک نے 602ھ میں حکم نگارش تاج المآثر کیا۔
مصنف تاریخ نویسی کا فرض
بخوبی ادا کرتے ہیں۔ اور جو بھی واقعات یا وضیعت اس زمانہ میں دیکھی ، اس کو رقم
کرتے ہیں، اور سلطان وقت کی تعریف کرتے
ہوئے ان کے کاموں کو لکھتے ہیں۔
"درآن زمان اھمیت زیادی
نہ تنھا بہ خاطر صرف کشور گشایی بلکہ ادارہ و استقرار نظم و امنیت برقرار کرد و شاھراہ ھا
را برای مسافران محفوظ ساخت۔ او حس می کرد کہ احتیاجات مردم را باید ھرچہ زور تر
فراھم کرد و حقوق رعیت انصاف باید ھر چہ سریعتر دادہ شود۔ چنانکہ گشادہ دستی محدود
او در حقوق سربازان از بزرگترین ویژگی ھای قابل ستایش او بہ شمار می رفتہ است"[1]
"اس درج بالا اقتباس کا مختصر مفھوم یہ ہے کہ حکومت فوجی نظام پر خصوصی
توجہ دیتی ہے، اور از سر نو منظم بھی کرتی ہے۔ رعایا کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔
ملک میں امن و سکون قائم رہے اس اس کے لئے
حکومت متوجہ رہتی ہے"
جہاں تک فارسی زبان و ادب کی بات ہے ۔ تو ہم دیکھتے ہیں کے ھندوستان میں یہ
زبان پانچویں صدی ھجری میں رونق پذیر ہوتی ہے۔ یہ دور غزنوی کہلاتا ہے۔ مغلیہ
سلطنت کے پہلے جو سلطنتیں یا حکومتیں قائم ہوئیں وہ یہ ہیں۔
سلسلہ غلامان 602-689ھ ، خلجیان 689-720 ھ ، تغلقان 817-820 ھ سیدان 817-885
ھ و لودیان 855-932 ہجری ، اس کے بعد بابر ہندوستان آتا ہے، اور سلسلہ تیمورہ کی
بنیاد رکھتا ہے۔ ان عہدوں میں فارسی زبان و ادب کافی ترقی کرتا ہے، اور بڑے بڑے
شاعر و ادیب و مورخ یہاں پیدا ہوۓ اور ایران سے بھی اچھی تعداد میں شعراء
و ادبا ہندوستان آۓ اور یہاں سکونت اختیار کرلی۔ ان عہدوں میں ہندستان
میں فرھنگ اسلامی و ایرانی کافی ترقی کی۔
1857 م ہندوستان کی تاریخ میں اھم واقعہ ہے۔ اس سال انگریز پورے ہندستان پر
قابض ہوگۓ۔ ان کی زبان انگریزی تھی،
لیکن انگریزوں نے فارسی زبان کو کافی ترقی دی اور مھمترین تاریخی کتابیں جو یہاں موجود
تھیں انکو انگریزی زبان ترجمہ کردیا۔تاج المآثر کا بھی انگریزی زبان میں ترجمہ
موجود ہے اور بعد کے مورخین نے بھی اس کتاب سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ مورخ فرشتہ
نے بھی تاریخ فرشتہ لکھتے وقت اس کتاب کو پیش نظر رکھا ہے۔ یہ کتاب بہترین سند
شمار کیا جاتا ہے۔
یہ کتاب نظم آمیختہ نثر ہے اور تین بادشاہوں قطب الدین ایبک، و التتمش
معزالدین اور محمد سام غوری شرح زندگی و وقائع پر مشتمل ہے۔ و سیاسی جنگوں کا بخوبی ذکر
ہے اور اس وقت کے جغرافیائی ہند کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔
مؤلف
جب جنگی حالات بیان کرتے ہیں تو اس جنگ
میں جو لوازم استعمال میں لاۓ گۓ، انکا ذکر کرتے ہیں، سلاح
وآلات جس کا ذکر تاج المآثر میں ہوا ہے۔
کوس، جلاجل، کرند، گوپال، گرز، تیغ، شمشیر، سیف، خنجر، چرخ، درگا، ژوبین،
تلوک، خدنگ، دایوس، تیر، خشت، سنان، نیزہ، کمان، سپر، پرکاب، تبر، شرب، قرورا،
پایت، علم، طلابہ، سرقہ، زرہ، جوش، خود، مغفر، صوفر، پیکان، خدنگ، چھار پر، پیک، پنبادی، شبہ، ناخن شبر، دشمہ، کنار ھندی، لچخ،
رمہ، شل ھندی، بھالاندی، منجیق، دیرداؤدی، خوش کنجر، نیزہ دیلمی، مغفرچین، جوشن،
ختایی، کمال کیانی و عود قمری۔
اسی
طرح مؤلف تاج المآثر مجلس موسیقی اور رقص
کے حالات بیان کرتے ہیں تو اس وقت تمام آلات
موسیقی کو لکھتے ہیں، مانند: ارغنون، طنبور، طبل، دھل، چنگ، چغن، طاس، رباب، درپت، دف، نی، رود،
جلاجل، چرم کمان، سرود، زیر، بم، مفراب، زمزمہ، زخمہ، تار، مطرب، موسیقار، خنیاگر۔
اور
جس وقت لباس و پارچہ کا ذکر کرتے ہیں، دیباتی ھفت رنگ، بساط زمردی، جامہ زربفات،
جامہ سنجاب، لباس بھامان، نقاب وبرقع، فرش قاقم ، مسند، تکیہ، بغدادی، زربفت رومی، دیبایی چینی، جامہ شوستری، کسوت عباسیان،
ایرازمائم، کسوت زنگاری، لباس ازرقی، جامہ کبود،
مصنف
اس کتاب میں جواھرات و ظروف و عطریات کا ذکر کرتے ہیں۔ یاقوت روما نی، لعل
بدخشانی، عقیق یمانی، آیینہ چینی، فلاد ، گوشوارہ، خلخال زرین، سپور، پارا، کفگیر،
کوزہ لولہ دار، دوک آبگینہ شامی، جام بغدادی، ساگر رومی و مشک ثبستی۔
اور
آداب و القاب جو اس زمانے میں ہوتے تھے، انکا ذکر کرتے ہیں: دارالفرب، ضرب خانہ،
جزیہ، خراج، مالگزاری، زکات، قاضی، مفتی، ذمی امام، خطیب، سپہ سالار، امیردار،
حاجب، امیر، عالم، کوتوال، منشی خطہ، حاکم اعلی، صدر کبیر، سر بر اعظم، وزیر،
دستور مملکت، دبیر خاص، دیوان مستوفی، کاتب سرجاندار، ایالت ولایت داری وغیرہ۔
یہ
کتاب کا ترجمہ انگریزی زبان میں
موجود ہے و پروفیسر امیر حسن عابدی کے ایما پر استاد بھگوت سروپ نے
بھی انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ تاج المآثر کی زبان پیچیدہ ہے۔ و کنایات و استعارات و تشبیھات جملوں پر مشتمل ہے، جس کو
نثر مصنوع کہتے ہیں۔ پروفیسر عابدی اس
کتاب کی تصحیح وتدوین کرتے ہیں اور خانہ فرھنگ ایران نے اس کتاب کو2007 ع میں دوبارہ شایع کیا ہے۔
الغرض
حکومت سلاطیں دھلی کے اوایل دور کے حالات جاننے کے لئے یہ بہترین اسناد تاج المآثر ہی ہے۔ اس میں 587-614 ھ 1191-1217 ع
تک حالات ماخذ ہیں۔
کتابیات:
1.
برنی، سید حسن، مقالات برنی ، علی گڑہ مسلم ینیورسٹی،1972 ۔
2۔ عابدی، پروفیسر امیر
حسن تاج المآثر: صدر الدین حسن نظامی، خانہ فرھنگ
ایران،1998
3۔ عبدالحئ خواجه)مترجم ( تاریخ فرشته، چاپ شیخ غلام علی ایند سنسز لاهور
حیدرآباد کراچی.
4۔ ابراهیم
زبیری، بساتین السلاطین، حیدرآباد، مطبع سیدی، 1310
5۔ موحد، دکتر محمد
علی، سفر نامه بطوطه "الرحله، چاپ
دانشگاه تهران .
6۔ نظامی، پروفیسر خلیق
احمد، تاریخی مقالات، ندوةالمصنفین جامع مسجد دهلی، 1966
7۔ .عابدی، مرغوب، (سوانح دهلی،شاهزاده مرزا احمد گورگانی) اردو
اکادمی دهلی 1999.
18.
Rahmat Ali Khar, Prof. S. A Abidi, Progress of Persian Literature under the
Adil Shahi dynasty of Bijapur 1489 to 1686 AD .
ڈاکٹر محمدعرفان
فارغ التحصیل، مرکز زبان و ادیبات فارسی
دانشگاہ جواہر لال نہرو
No comments:
Post a Comment