Thursday, January 31, 2019

گلاب GULAB


گلاب
اےگلاب!
تری  زندگی عجیب  بھی ،غریب بھی
تری تعریف میں کہا کیا جاۓ
گر چہ تو خار و خش میں پلتا ہے
تو ہنستا ہے، ہنساتا ہے، مسکراتا ہے
تم سے شکایت بھی ہے محبت بھی ہے
ترا  تصور محبت
ترا خیال خوشی
تجھے دیکھوں تو  دل شرسار
تجھ سے انسانیت کی بقا
ترے سہارے انسان زندگی جیتا ہے
تو نےکتنوں کوزندگی بخشی
لیکن تجھ سے شکایت ہے
تو نے کتنوں کا دل توڑا ہے
اور تو قاتل بھی ہے
تری نازک پنکھڑی میں جو تراش ہے
دل نرم ونازک پہ جو اثر کرتی ہے
پرتری تراش کہاں دکھتی ہے
دل سنگ کو تجھ سے ڈر رہتا ہے
تو محبت کا استعارہ  بن کر جیتا ہے
تو  اک سوغات بھی ہے
ترے ھزار  روپ
تو  ملکہ بن کر ،محفل کا روح رواں بھی ہوتا ہے
تو عداوت کو محبت میں بدل دیتا ہے
تری تاریخ بھی قدیم ہے
اور تو ھزار  رنگوں میں ہے
اےگلاب!  ترے بغیر شاعری ممکن نہیں
تو شاعروں کا ساماں بھی ہے
تری خوبیوں کی تعریف کیسے کروں
تو کتنے رنگوں میں کتنی اداؤں میں ہے
پر تری خوشبوؤں میں فرق  نہیں
اے گلاب !تو بڑی جلد روٹھ جاتا ہے
اے گلاب، ذرا
 غنچہسے چٹک کر
مسکرا دے،   ہنس دے
ہاں!  ذرا ہنس دے
نظر عرفان




O Pathar وہ پتھر


وہ پتھر

وہ دن ہے یاد مجھکو گذرا ہوا زمانہ
وہ پرندے جو ہم پہ گاۓ پرنغمگی ترانہ
اور وہ  پتھر! اپنی جگہ
اسے دیکھ کر
تم یاد آتی ہو
تری یادیں مجھے رلاتی ہیں
میں اب بھی
تری یاد میں یہاں آتا ہوں
پر تجھے نہیں پاتا ہوں
اپنے کو مناتا ہوں
یہ وہ پتھر،  جہاں بیتے
مری زندگی کے
تری زندگی کے
 کچھ لمحے! 
وہ دن وہ گھڑی میں بھول نہ پایا  
 کہ تو نے کی تھیں باتیں
 زندگی ساتھ جینے کی،  ساتھ چلنے کی
پر زندگی کں لہروں نے
تجھے، ہم سے کنارا کر دیا
پرمیں تمہیں یہاں پاتا ہوں
اور یہ پتھر
سناتا ہے داستان پارینہ
اور مجھے رلاتا ہے
یہ پتھر گواہ بے میری وفا کا
اور وہ نشان اب نہ رہے
پراب بھی دکھ رہا مجھے 
کہ تری آنکھوں سے ٹپک پڑے تھے جو اشک
اور مری آںکھوں سے بھی
اور بن پڑے تھے محبت کے نشان
اور یہ نشان کچھ دن رہے، پھر مٹ گۓ
پرجب میں یہاں آتا ہوں
مجھے یہ دکھ ہی جاتا ہے
آ ،  تو بھی آ ،   اکیلی آ،
میرے غائبانہ میں آ،
دیکھ لے
 یہ پتھر تری بیتی زندگی کی رکھتا ہے داستان
یہ پتھر سناۓ گا تجھے
بتائے گا تجھے
شاید تجھے بھی دکھ جاۓ وہ محبت کا نشان
جب تم یاد آتی ہو
میں یہاں آجاتا ہوں
بیٹھ جاتا ہوں
چند گھڑی، چند پل، چند لمحے
شاید تم بھی آؤ گی یہاں
 شاید تجھے بھی وہ گذرے
                                  دن یاد آتے ہوں
پر تم کبھی نہ ملی
کاش! تم کبھی آتی یہاں
 کبھی مل جاتی یہاں
اور ان پرندوں میں سے کوئی پرندہ ہو
جو ہمیں دیکھ کر
تمہیں دیکھ کر
پھر گاتا وہ ترانہ
مری زندگی کا
تری زندگی کا
یہ پتھر میں بھول نہ پاؤں گا
یہ پتھر گواہ ہے مری وفا کا
وہ دن ہے یاد مجھکو
گذرا ہو ا زمانہ

نظر عرفان






ادھوری زندگی Adhori Zindag



  ادھوری زندگی

یہ زندگی
میری
رہ گئ ادھوری
وہ ملی پر وہ  نہ ملی
لاکھ کوششیں کی
پر کچھ حاصل تو نہیں
یہ ہے مقدر کا کھیل 
جو ملی!  پر وہ بھی نہ ملی
ہے یہ فلسفہ مشھور
خودی کو کر بلند اتنا
پر یہ بھی کام آیا تو نہیں
ہر طرف مجھے دکھ رہا ہے ویرانیاں،
 ہر کوئی ہے آج پرایا 
اور یہ مری بربادیان
جو دکھ رہا ہے سبھی کو
اور یہ جو  ہیں اپنے
اور مانا جن کو میں نے اپنا 
 یہ بھی کام آۓ  تو نہیں
ان اپنوں کے ساتھ بھی ہے مجبوریاں 
اوروں نے،  جوسمجھ  پاے تو نہیں!
 پر میں سمجھا تو سہی! 
سنا ہے بنجر زمین بھی سنبل اگاتی ہے
گر ہو عمل نیک نیتی
ایسا ہوتا ہے  پر کبھی ایسا ہوتا  تو نہیں
اگر ہاتھوں کہ لکیروں میں لکھا  ہو فقیری
شکر خدا  کا کروں،  یہ فقیری ہی سہی
شکایت کروں کیوں اس پروردگار سے!
جس نے دی یہ زندگی
پر شکایت کروں کیوں نہ
 ایسی زندگی ہی کیا!
جس میں ہو  نہ آسودگی
یارو  دنیا اسی کا نام ہے
یہ دنیا جنت تو نہیں!
نظر عرفان