ممبئ ایک بستی
ممبئ ایک بستی ہے
یہ ایسی بستی
ہے،
ہزار بستیاں یہاں بستی ہیں
سمندر نگہبان ہے
ان بستیوں کو میں شہر نہیں کہتا
بستی میں کہتا ہوں
لوگ یہاں بستے ہیں
یہ زمیں انسانوں کا بسیرا ہے
لوگ اسے شہر کہتے ہیں
یہ ایسی بستی ہے
جو سو
نہیں پاتی ہے
جب
سونا چاہے۔
لوگ جگا دیتے ہیں،
پر یہ کچھ کہتی نہیں،
سب سہتی ہے۔
سمندری موج سے ،
مدھم مدھم
صدائیں
تیز چلتی ٹرینیں
بستیوں
کو جوڑتی ہے،
بستییوں سے بستیاں بساتی ہے
ممبی ایک بستی ہے۔
یہ کبھی نہ تھکتی ہے،
یہ تیز چلتی ٹرینیں
اس کی آوازیں،
نغمگی کی
کئ دھن بناتی ہے۔
اور کئ
سروں میں گاتی ہے،
اپنے بستی والوں کو
میٹھی نیںد
سے سلاتی ہے۔
سمندر ان بستیوں کا ہمسایہ بھی ہے
اپنی چنچل ہواؤں سے
خوب ہمسایگی نبھاتی ہے
یہاں اندھیری بھی ایک بستی ہے
اندھیری بستی کی اندھیری راتوں میں
اندھیری بستی کی اندھیری راتوں میں
یہاں جو جمتی ہے
انجمن نقش نگاران شہر
رقص جسے کہتے ہیں۔
رقص
خانوں میں،
رخسار
کئ رخساروں میں،
بوتلیں کئ نقشوں میں
برہنہ گلاسیں
مشروب کئ رنگوں میں
ماہ پارائیں اپنے اپنوں میں،
انکی آدائیں کئ رنگوں میں
موسیقی،
سروں کے
کئ رنگوں میں
اور دھن
کئ دھنوں میں
سبھی مل
کرمحفل بناتے ہیں،
دیوانگی کا یہ منظر
ہمیں مہذب بناتا ہے
ممبئ ایک بستی ہے۔
ان بستیوں میں
شاہزادوں کا بسیرا بھی
اونچے سراؤں کے دامن میں،
مزدور بھی، فقیرکی کٹیا بھی
ڈر یہ رہتا ہے،
ان اونچے سراؤں سے،
جسکی
ڈور بڑی لمبی ہے
جو
دکھتی تو نہیں،
پر ان شہزادوں سے ڈر رہتا ہے
کب یہ ڈور ہلا
ڈالیں
اور ان مزدوروں پہ
گر پڑے برق
آسمانی
پھر انکا مسکن، انکا بسیرا
کسی
دوسرے شہزادے کے دامن میں
پھر بھی انہیں ڈر یہ رہتا ہے
پھر نہ یہ ڈور ہل جاۓ
یہ وہ بستی ہے
جہاں عاشقان غالب بھی بستے ہیں،
سوتے ہیں،
ممبئ ایک بستی ہے۔
کیفی و جعفری کی بستی ہے،
ساحر کے سحر پہ
مجروح کی ضرب کاری
یہ آنکھوں سے نہیں دکھتی
پر یہ دھنوں و سروں میں دکھ جاتی ہے۔
کن کن کو میں بھولوں
یہ ایسی بستی!
جن کو یہ بساتی ہے،
وہی یہاں بس پاتے ہیں
بہتیرے یہاں آتے ہیں
دھلی والے بھی!
دھلی والے بھی!
کلکتہ والے بھی یہاں آتے ہیں
چنئ ہو
حیدرآباد
بنارسی بھیا ہو یا بہاری بابو
سبھی یہاں آتے ہیں
پر سبھی یہاں بس نہیں پاتے ہیں۔
جو بس نہیں پاتے!
بیچارے!
وہ چلے جاتے ہیں
ممبئ ایک بستی ہے
زندگی یہاں کئ سروں میں،
کئ
رنگوں میں،
کوئی مست مولا بن کر
کوئی گاتے دما دم مست قلندر
رو برو بھی یہاں
فقط تو
ہی تو بھی یہاں
یہ ایک ایسی بستی ہے،
کوئی بوجھ اٹھاتے سر پر
کوئی پاؤبھازی کھا کر
اپنے کاموں میں
سب مگن ہو کر
بساتے ہیں
اس بستی
کو
بتاتے ہیں
زندگی جینے کی ادا
ہم کو،
ہم سب کو
یارو! زندگی، زندگانی- مستانی
جی لو جی بھر کر
زندگی ہے آنی فانی
ممبئ ایک بستی ہے!
نظر عرفان، جی این یو
No comments:
Post a Comment