عالیہ کی سلیقہ مندی
ممبئ نیشنل کمپنی برانچ آفس واسی" کے بوس "مسٹر
روہن آہوزا" اپنے کام میں مصروف۔
عالیہ ایک مسلم ایم بی اے خوبصورت متناسب الاعضا
لڑکی، آفس جوئن کرتی ہے اور دفتر میں اپنے وقت پر حاضر ہوا کرتی ہے۔
یہ مشرقی مزاج
لڑکی اسلامی لباس میں اپنی سلیقہ مندی سے اپنی پہچان دفتر میں بناتی ہے۔
عالیہ کہ کاموں سے دفتر کا بوس "مسٹر روہن آہوزا"
بہت متاثر ہوتا ہے۔
ایک دن
مسٹر روہن آہوزا اپنے دفتر کے اسسٹنٹ "مسٹر
نیتن" سےعالیہ کےبارے میں کچھ باتیں کررہا تھا۔
اس کاکلیگ "نیتن" سمجھ چکا تھا کہ
عالیہ سر (مسٹر روہن آہوزا) کے دل مں جگہ
بنا چکی ہے ۔
عالیہ بھی سمجھنے لگی تھی کہ آخر بوس آج کل ہم
پہ زیادہ مہربان لگ رہے ہیں۔
عالیہ کے ساتھ مجبوری تھی جاب کی، جاب آسانی سے
ملتی تو نہیں۔
ایک دن نتن اپنے بوس سے بولتا ہے، سر! عالیہ کا
گیٹ اپ عجیب ہے، کالا کالا پہن کر کیا آفس آیا کرتی ہے۔
مسٹر روہن آہوزا!
ہاں یار! میں بھی یہی سوچ رہا ہوں، پر بولوں
کیسے! دیکھو تو اور بھی کتنی اچھی ماڈرن ڈریس
اور میک اپ کرکے لڑکیاں آفس آتی ہیں،
پر ایسا
میں کچھ بول نہیں سکتا۔
لیکن نیتن
! تم عالیہ کو اشارہ سے بولو کہ تم آفس میں برقع پہن کر آتی ہو۔
آفس میں
اور بھی دو مسلم لڑکیاں ہیں، "زیبا" اور "راحیلہ" کہاں اسلامی
لباس پہنتی ہیں؟
لیکن عالیہ کی پرورش و تعلیم تربیت اسلامی ماحول
میں ہوئی تھی۔ اسے دوبئ میں جاب کا موقع ملا تھا۔ لیکن ان کے والدین رشتہ کی تلاش میں تھے، کوئی اچھی فیملی، اچھا لڑکا مل جاے
توعالیہ کی شادی کردی جاۓ۔
عالیہ یہ جاب چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔
چل! آفس
کی جاب ہے، بوس ٹھیک ہی بول رہے ہیں، تھوڑا گیت اپ بدل لیتا ہوں۔
عالیہ اب آفس میں نقاب کی جگہ سلوار پائجامہ پہ
بڑے سائز کے دوپٹہ کے ساتھ آنے لگی۔
بوس "مسٹر روہن آہوزا" ایک دن نیتن سے کہتا ہے! یہ کیا ہے سلوار
پائجامہ اور یہ سر پہ چادر۔
بولوعالیہ کو یہ سلوار پائجامہ اور رنگ بدل بدل کر
سرپہ دو پٹہ، یہ کیا؟ یہ گھر ہے؟
"مسٹر روہن آہوزا" : اگر ہیڈ آفس سے کبھی بڑے لوگوں کا وزٹ ہوجاۓ، اور
یہ گیٹ اپ دیکھ کر وہ لوگ کیا سمجھیں
گے، ہمیں سننا پڑے گا۔
پر عالیہ کا ورک فید بیک اچھا ہے، نو داؤت، نیتن
بھی ہاں کہتا ہے۔
لیکن نیتن! بولو عالیہ کو، تھوڑا گیت اپ پہ دھیان دے۔ بوس بھی نہیں چاہتے
تھے کہ عالیہ میری آفس چھوڑ دے۔
نیتن کی باتوں سے عالیہ خوش نہ تھی، لیکن جاب
چھوڑنا، پھر نئ جاب ڈھونڈنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
عالیہ سوچتی ہے چلو تھوڑا سر کی باتوں کا خیال
رکھنا چاۓ، آخر کالج کے زمانہ میں کبھی کبھی جینس و شرٹ تو پہنتی ہی تھی۔
عالیہ یہ باتیں اپنی سہیلیوں سے شیئر کیا کرتی
تھی۔
اب عالیہ نے ایک ترکیب یہ نکالی کہ میں اب آفس جینس
پنت شرٹ و اسکارف پہ جایا کروں گی۔
عالیہ اب اسی گیٹ اپ کے ساتھ آفس جانے لگی، اور
اچھی بھی لگتی تھی۔
اب بوس عالیہ کے اس گیت اپ سے خوش تھے۔
ایک دن "
مسٹر روہن آہوزا " عالیہ کو اپنے
چمبر میں بلاتی ہے، عالیہ کیسی ہو!
عالیہ؛
فائن سر، اوکے۔
عالیہ تمہاری پرفارمینس اچھی چل رہی ہے، نۓ سال میں تمہارا پرموشن کہ لۓ فائل ہید آفس
بھیجتا ہوں،
عالیہ مسکرا کر جواب دیتی ہے، تھینک یو سر!
اس دوران عالیہ کا اسکارف ذرا سر سے پھسل کر
ٹیبل پہ آجاتا ہے، ایسا تو غیر دانستہ طور پہ ہوا تھا، لیکن "مسٹر روہن آہوزا" کچھ
ایسا سمجھے کہ عالیہ نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ لیکن عالیہ بوس کے نفس سے واقف
ہو چکی تھی۔
عالیہ کیا تم اسکارف لگاتی ہو، لیکن ہاں! اچھی
لگتی ہو، اچھا چلو باہر چاۓ کے لئے۔
عالیہ! اوکے سر۔
پھر چاۓ کے لۓ دونوں آفس سے باہر جاتے ہیں۔
عالیہ و "مسٹر روہن آہوزا" دونوں ٹھوڑی دیر بعد آفس آجاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر آفس کے
کچھ بندے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔
اب عالیہ سوچنے پہ مجبور تھی، گھر آکر سوچنے
لگی، محلہ گلی والوں نے بھی عالیہ کا "ڈریس گیٹ اپ" بدل جانے سے چہ می گؤیاں
شروع کر دی تھیں۔
عالیہ آفس میں بوس کے برتاؤ سے کچھ سمجھ پا نہیں
رہی تھی۔
نہایت کشمکش میں فیصلہ کرلیا آفس چھوڑنے کا۔
دوسرے دن عالیہ معمول کے مطابق آفس پہنچتی ہے
اور ریزائن درخواست بوس مسٹر روہن آہوزا کو
سونپ دیتی ہے۔
جس میں وجہ
یہ لکھتی ہے، کسی دوسری کمپنی میں اچھا اوفر ہے!
(دکتر محمد عرفان)
No comments:
Post a Comment