Sunday, May 26, 2019

MUMBAI EK BASTI




ممبئ ایک بستی

ممبئ ایک بستی ہے
یہ ایسی بستی  ہے،  
ہزار بستیاں یہاں بستی ہیں
سمندر نگہبان ہے
ان بستیوں کو میں شہر نہیں کہتا
بستی میں کہتا ہوں
لوگ یہاں بستے ہیں
یہ زمیں انسانوں کا بسیرا ہے
لوگ اسے شہر کہتے ہیں
یہ ایسی بستی ہے
 جو سو نہیں پاتی ہے
جب سونا چاہے۔
لوگ جگا دیتے ہیں، 
پر یہ کچھ کہتی نہیں،
سب سہتی ہے۔
سمندری موج سے ،
 مدھم مدھم صدائیں
 تیز چلتی ٹرینیں
 بستیوں کو جوڑتی ہے،
بستییوں سے بستیاں بساتی ہے
ممبی ایک بستی ہے۔
یہ کبھی نہ تھکتی ہے،
یہ تیز چلتی ٹرینیں
اس کی آوازیں،
 نغمگی کی کئ دھن بناتی ہے۔
 اور کئ سروں میں گاتی ہے،
اپنے بستی والوں کو
 میٹھی نیںد سے سلاتی ہے۔
سمندر ان بستیوں کا ہمسایہ بھی ہے
اپنی چنچل ہواؤں سے
خوب ہمسایگی نبھاتی ہے
یہاں اندھیری بھی ایک بستی ہے
اندھیری بستی کی اندھیری راتوں میں
یہاں جو جمتی ہے
انجمن نقش نگاران شہر
رقص جسے کہتے ہیں۔
 رقص خانوں میں،
 رخسار کئ رخساروں میں،
بوتلیں کئ نقشوں میں
برہنہ گلاسیں
مشروب کئ رنگوں میں
ماہ پارائیں اپنے اپنوں میں،
انکی آدائیں کئ رنگوں میں
موسیقی،
 سروں کے کئ رنگوں میں  
 اور دھن کئ دھنوں میں
 سبھی مل کرمحفل بناتے ہیں،
دیوانگی کا یہ منظر
ہمیں مہذب بناتا ہے
ممبئ ایک بستی ہے۔
ان بستیوں میں
شاہزادوں کا بسیرا بھی
اونچے سراؤں کے دامن میں،
مزدور بھی، فقیرکی کٹیا بھی
ڈر یہ رہتا ہے،
ان اونچے سراؤں سے،
 جسکی ڈور بڑی لمبی ہے
 جو دکھتی تو نہیں،
پر ان شہزادوں سے ڈر رہتا ہے
کب یہ ڈور ہلا  ڈالیں 
اور ان مزدوروں پہ
 گر پڑے برق آسمانی
پھر انکا مسکن، انکا  بسیرا
 کسی دوسرے شہزادے کے دامن میں
پھر بھی انہیں ڈر یہ رہتا ہے
پھر نہ یہ ڈور ہل جاۓ
یہ وہ بستی ہے
جہاں عاشقان غالب بھی بستے ہیں،
سوتے ہیں،
ممبئ ایک بستی ہے۔
کیفی و جعفری کی بستی ہے،
ساحر کے سحر پہ
مجروح کی ضرب کاری
یہ آنکھوں سے نہیں دکھتی
پر یہ دھنوں و سروں میں دکھ جاتی ہے۔
کن کن کو میں بھولوں
یہ ایسی بستی!
جن کو یہ بساتی ہے،
وہی یہاں بس پاتے ہیں
بہتیرے یہاں آتے ہیں
دھلی والے بھی!
کلکتہ والے بھی یہاں آتے ہیں
 چنئ ہو حیدرآباد
بنارسی بھیا ہو یا بہاری بابو
سبھی یہاں آتے ہیں
پر سبھی یہاں بس نہیں پاتے ہیں۔
جو بس نہیں پاتے!
بیچارے!
وہ چلے جاتے ہیں
ممبئ ایک بستی ہے
زندگی یہاں کئ سروں میں،
 کئ رنگوں میں،
کوئی مست مولا بن کر
کوئی گاتے دما دم مست قلندر
رو برو بھی یہاں
 فقط تو ہی تو بھی یہاں
یہ ایک ایسی بستی ہے،
کوئی بوجھ اٹھاتے سر پر
کوئی پاؤبھازی کھا کر
اپنے کاموں میں 
سب مگن ہو کر
بساتے ہیں
 اس بستی کو
بتاتے ہیں
 زندگی جینے کی ادا
ہم کو،
 ہم سب کو
یارو! زندگی، زندگانی- مستانی
جی لو جی بھر کر
زندگی ہے آنی فانی
ممبئ ایک بستی ہے!

نظر عرفان، جی این یو









Wednesday, May 8, 2019

عالیہ کی سلیقہ مندی


عالیہ کی سلیقہ مندی
ممبئ نیشنل کمپنی برانچ آفس واسی" کے بوس "مسٹر روہن آہوزا"  اپنے کام میں مصروف۔
عالیہ ایک مسلم ایم بی اے خوبصورت متناسب الاعضا لڑکی، آفس جوئن کرتی ہے اور دفتر میں اپنے وقت پر حاضر ہوا کرتی ہے۔ 
یہ مشرقی مزاج  لڑکی اسلامی لباس میں اپنی سلیقہ مندی سے اپنی پہچان دفتر میں بناتی ہے۔
عالیہ کہ کاموں سے دفتر کا بوس "مسٹر روہن آہوزا" بہت متاثر ہوتا ہے۔
 ایک دن مسٹر روہن آہوزا  اپنے دفتر کے اسسٹنٹ "مسٹر نیتن" سےعالیہ کےبارے میں کچھ باتیں کررہا تھا۔
اس کاکلیگ "نیتن" سمجھ چکا تھا کہ عالیہ سر (مسٹر روہن آہوزا)  کے دل مں جگہ بنا چکی ہے ۔
عالیہ بھی سمجھنے لگی تھی کہ آخر بوس آج کل ہم پہ زیادہ مہربان لگ رہے ہیں۔
عالیہ کے ساتھ مجبوری تھی جاب کی، جاب آسانی سے ملتی تو نہیں۔
ایک دن نتن اپنے بوس سے بولتا ہے، سر! عالیہ کا گیٹ اپ عجیب ہے، کالا کالا پہن کر کیا آفس آیا کرتی ہے۔
مسٹر روہن آہوزا!
ہاں یار! میں بھی یہی سوچ رہا ہوں، پر بولوں کیسے!  دیکھو تو اور بھی کتنی اچھی ماڈرن ڈریس اور میک اپ کرکے لڑکیاں آفس آتی ہیں،
 پر ایسا میں کچھ بول نہیں سکتا۔
 لیکن نیتن ! تم عالیہ کو اشارہ سے بولو کہ تم آفس میں برقع پہن کر آتی ہو۔
 آفس میں اور بھی دو مسلم لڑکیاں ہیں، "زیبا" اور "راحیلہ" کہاں اسلامی لباس پہنتی ہیں؟
لیکن عالیہ کی پرورش و تعلیم تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی تھی۔ اسے دوبئ میں جاب کا موقع ملا تھا۔ لیکن ان کے والدین رشتہ کی تلاش  میں تھے، کوئی اچھی فیملی، اچھا لڑکا مل جاے توعالیہ کی شادی کردی جاۓ۔
عالیہ یہ جاب چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔
 چل! آفس کی جاب ہے، بوس ٹھیک ہی بول رہے ہیں، تھوڑا گیت اپ بدل لیتا ہوں۔
عالیہ اب آفس میں نقاب کی جگہ سلوار پائجامہ پہ بڑے سائز کے دوپٹہ کے ساتھ  آنے لگی۔
بوس "مسٹر روہن آہوزا"  ایک دن نیتن سے کہتا ہے! یہ کیا ہے سلوار پائجامہ اور یہ سر پہ چادر۔
بولوعالیہ کو یہ سلوار پائجامہ اور رنگ بدل بدل کر سرپہ دو پٹہ، یہ کیا؟ یہ گھر ہے؟
"مسٹر روہن آہوزا" :  اگر ہیڈ آفس سے کبھی بڑے لوگوں کا وزٹ ہوجاۓ، اور یہ گیٹ اپ دیکھ کر وہ لوگ کیا سمجھیں گے، ہمیں سننا پڑے گا۔
پر عالیہ کا ورک فید بیک اچھا ہے، نو داؤت، نیتن بھی ہاں کہتا ہے۔
لیکن نیتن! بولو عالیہ کو،  تھوڑا گیت اپ پہ دھیان دے۔ بوس بھی نہیں چاہتے تھے کہ عالیہ میری  آفس چھوڑ دے۔
نیتن کی باتوں سے عالیہ خوش نہ تھی، لیکن جاب چھوڑنا، پھر نئ جاب ڈھونڈنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
عالیہ سوچتی ہے چلو تھوڑا سر کی باتوں کا خیال رکھنا چاۓ، آخر کالج کے زمانہ میں کبھی کبھی جینس و شرٹ تو پہنتی ہی تھی۔
عالیہ یہ باتیں اپنی سہیلیوں سے شیئر کیا کرتی تھی۔
اب عالیہ نے ایک ترکیب یہ نکالی کہ میں اب آفس جینس پنت شرٹ و اسکارف پہ جایا کروں گی۔
عالیہ اب اسی گیٹ اپ کے ساتھ آفس جانے لگی، اور اچھی بھی لگتی تھی۔
اب بوس عالیہ کے اس گیت اپ سے خوش تھے۔
 ایک دن " مسٹر روہن آہوزا  " عالیہ کو اپنے چمبر میں بلاتی ہے، عالیہ کیسی ہو!
 عالیہ؛ فائن سر، اوکے۔
عالیہ تمہاری پرفارمینس اچھی چل رہی ہے،  نۓ سال میں تمہارا پرموشن کہ لۓ فائل ہید آفس بھیجتا ہوں،
عالیہ مسکرا  کر جواب دیتی ہے، تھینک یو سر!
اس دوران عالیہ کا اسکارف ذرا سر سے پھسل کر ٹیبل پہ آجاتا ہے، ایسا تو غیر دانستہ طور پہ ہوا تھا،  لیکن "مسٹر روہن آہوزا"   کچھ ایسا سمجھے کہ عالیہ نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ لیکن عالیہ بوس کے نفس سے واقف ہو چکی تھی۔
عالیہ کیا تم اسکارف لگاتی ہو، لیکن ہاں! اچھی لگتی ہو، اچھا چلو باہر چاۓ کے لئے۔
  عالیہ! اوکے سر۔
پھر چاۓ کے لۓ دونوں آفس سے باہر جاتے ہیں۔
عالیہ و "مسٹر روہن آہوزا" دونوں  ٹھوڑی دیر بعد آفس آجاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر آفس کے کچھ بندے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے  ہیں۔
اب عالیہ سوچنے پہ مجبور تھی، گھر آکر سوچنے لگی، محلہ گلی والوں نے بھی عالیہ کا "ڈریس گیٹ اپ" بدل جانے سے چہ می گؤیاں شروع کر دی تھیں۔
عالیہ آفس میں بوس کے برتاؤ سے کچھ سمجھ پا نہیں رہی تھی۔
نہایت کشمکش میں فیصلہ کرلیا آفس چھوڑنے کا۔
دوسرے دن عالیہ معمول کے مطابق آفس پہنچتی ہے اور ریزائن درخواست بوس مسٹر روہن آہوزا  کو سونپ دیتی ہے۔
 جس میں وجہ یہ لکھتی ہے، کسی دوسری کمپنی میں اچھا اوفر ہے!
(دکتر محمد عرفان)

آنسو اپنوں سے دور ہونے کی


آنسو اپنوں سے دور ہونے کی
سرفراز ایک نوجوان لڑکا گریجویشن اپنے شہر سے مکمل کرنے کے بعد  بی سی اے دہلی سے کر کے نوکری کی تلاش میں گھومتا پھرتا ممبئ پہنچتا ہے،  یہاں کسی کمپنی کی آفس میں نوکری مل جاتی ہے،  مناسب تنخواہ   نہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسری نوکری کی تلاش میں رہا کرتا ہے، گھر والے سرفراز کی شادی کر دینا چاہتے تھے،  ایک مناسب رشتہ آجانے سے گھر والے تیار ہوجاتے ہیں اور سرفراز بھی لڑکی کی تصویر دیکھنے کے بعد شادی کہ لئے تیار ہوجاتا ہے۔  
اور وہ عید کے موقع پہ گھر
آتا ہے۔ کچھ دنوں بعد سرفراز کی شادی ہوجاتی ہے، اور چند ماہ گھر پہ رہتا ہے، ہنسی خوشی زندگی جی رہے تھے، سرفراز پرانی نوکری مناسب تنخواہ  نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ چکا تھا۔
سرفراز کی بیوی نازیہ انتر آرٹس کر چکی تھی اور تعلیم جاری نہ رکھ پائی۔ شادی ماں باپ کی مرضی سے کرنی پڑی، سرفراز کے پاس پیسہ کی کمی ہونے لگی، روزگار کی تلاش میں رہنے لگا۔ اپنے ملک میں مناسب نوکری نہ ملنے کی وجہ سے وہ فیصلہ کر چکا تھا بیرونی ملک جانے کا۔ سرفراز کے والدین بیمار رہتے تھے، اس کے والد کا روزگار ٹھیلہ پہ کپڑے بیچنے کا تھا، اب یہ کام اس کا بڑا بھائی کررہا تھا، سرفراز کی دو بہنیں تھیں، ایک کی شادی ہوچکی تھی، دوسری کی شادی کے رشتے بھی آنے شروع ہو گۓ تھے، لیکن مالی حالات گھر کے اچھے نہ ہونے کی وجہ سے دو سال تک سرفراز بہن کی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اب وہ سعودیہ جانا چاہتا تھا۔ اس جگہ کا انتخاب اسلئے کیا تھا کہ اس کی خواہش تھی عمرہ کرنے اور مدینہ شریف کی زیارت کرنے کی۔     
سرفراز کی بھابھی تھوڑی الگ سوچ و مزاج کی تھی وہ چاہتی تھی کسی طرح نند کی شادی ہوجاۓ اور وہ  دونوں بچوں و شوہر کے ساتھ جدا زندگی گزارے۔ لیکن سرفراز کے والدین کی مرضی ابھی ایسی نہ تھی۔ جب تک  بیٹی نازنین کی شادی نہ ہو جاۓ۔
 سرفراز گھر والوں کی مرضی سے ممبئ جانے کی ٹکت لے چکا تھا، ممبئ سرفراز کے لۓ نیا شہر نہ تھا، سرفراز کہ سسرال  والے بھی یہی چاہتے تھے کہ سرفراز سعودی جا کر کچھ نازیہ کہ لۓ اچھا کرے گا، اور یہ دیکھ رہے تھے بیٹی داماد ماں باپ بننے والے ہیں، پیسے کی ضرورت زندگی کے ہر موڑ پہ ہوتی ہے۔
سرفراز ایک سال قبل ممبئ میں نوکری کر چکا تھا، اس وقت ممبی میں ایک چھوٹا سا کمرہ لے رکھا تھا، اور ایک روم میٹ بھی تھا، وہ اللہ کا بندہ  اب ممبئ میں نہیں تھا۔ سرفراز کے لۓ اب یہ مسئلہ تھا، ممبئ میں مناسب جگہ کی، جہاں کچھ ماہ قیام کیا جاۓ۔
 اب سرفراز اپنے دوسرے دوستوں کو، جو ممبئ میں کام کر رہے تھے اور دھلی میں بی سی اے کلاس کے دوران کلاس میٹ تھے، اطلاع دیتا ہے اور اپنی حالات بتاتا ہے، مدد چاہتا ہے۔ نواز جو دہلی میں سرفراز کا اچھا دوست تھا، فی الحال وہ ممبئ میں تھا، اپنے ساتھ  رکھنے کو تیار ہو جاتا ہے۔۔۔۔  آجا یار!
 دل بڑا ہو تو چھوٹی گھر بھی بڑی ہوجاتی ہے۔ ممبئ میں کوئی ایسی بات کرے تو یہ بڑی بات ہے، جہاں آسانی سے رہائش دستیاب نہیں ہوتی ہے۔
نواز اپنے روم کا ادریس سرفراز کو واٹس اپ کر دیتا ہے۔ سرفراز ممبئ پہنچتا ہے۔ 'بوریلی' علاقہ میں نواز کے ساتھ رہتا ہے، اور سعودی جانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، نواز کسی کمپنی کی آفس میں اکاونٹنٹ تھا، اس کے روم میں کوئی ایک اور 'سرور' نام کا بندہ رہتا تھا، جو نواز کا روم پارٹنر تھا۔
سرفراز ایک دو ہفتے یہاں رہنے کے بعد یہ محسوس کرتا ہے، زیادہ دنوں یہاں رکنا مناسب نہیں! اور کسی دوسری جگہ کی تلاش میں رہتا ہے، اب باہر کا کام بھی آسانی سے نہیں مل پاتا ہے، پتہ نہیں کب تک ممبئ  میں رہنا پڑے۔ 
سرفراز یہاں مختلف کنسلٹنسی کا چکر لگاتا ہے، انٹرویو میں آنے جانے کے دوران ایک احمد نام کے نوجوان سے دوستی ہوجاتی ہے، جو کسی مسافر خانہ میں دو ماہ سے رہ رہا تھا، اور خلیجی  ملک جانے کے لۓ انٹرویو دے رہا تھا، سرفراز اس مسافرخانہ کا اڈریس حاصل کرتا ہے اور ایک دن وہاں پہنچ کر مسافر خانہ کا جائزہ لیتا ہے، اسے یہ جگہ پسند آجاتی ہے، اور یہاں رہنے کا ارادہ پکا کر لیتا ہے۔
سرفراز روم آنے پہ نواز کو بتاتا ہے کہ میں ایک مسافر خانہ دیکھ کر آیا ہوں، بہت اچھا لگا۔ تمہاری مدد کا میں بہت شکر گزار ہوں۔ وہاں اور بھی بندے ہیں، جو باہر جانے کے لۓ یہاں رکے ہوۓ ہیں، ہمیں آسانی ہوگی انٹرویو میں، کب کہاں کون سا انترویو ہونے والا ہے، وہاں پہ اسکی ساری معلومات ملتی رہتی ہے۔
   سرفراز دوسرے دن جو اتوار کا دن تھا، مسافر خانہ آجاتا ہے۔ نواز بھی چھٹی ہونے کی وجہ سے، دوستانہ طور پر سرفراز کے ساتھ مسافر خانہ آتا ہے۔
یہ مسافرخانہ مسجد کمیٹی کی نگرانی میں تھا، ایک ترسٹ کے تحت سرکاری دفتر میں رجسٹرڈ تھا، مناسب کرایہ، کھلی جگہ پہ چیمبور اشٹیشن سے لگا یہ مسافر خانہ تھا، کہیں بھی آنے جانے میں سہولت ہوا کرتی تھی، سرفراز کے یہاں کئ دوست بن جاتے ہیں، سبھی یہاں پہ ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے، آپس میں کبھی کبھی تو تو مین مین بھی ہوا کرتی تھی، اس مسافر خانہ میں ساٹھ ستر لوگ ہمیشہ رہا کرتے تھے، اتنے ہی لوگوں کے لۓ جگہ تھی، اصول و قواعد بڑے سخت تھے، کچھ لوگ پارٹ تائم کام بھی کرتے تھے، کیٹرینگ کا کام ان لوگوں کو آسانی سے مل جایا کرتا تھا، تین یا چار سو پر ڈے کہ حساب سے۔ جن کہ پاس پیسہ کی کمی ہوتی تھی وہ یہ کام خوشی سے کیا کرتے تھے، پارٹیوں  میں اچھا کھانا آسانی سے دستیاب ہو جاتا تھا۔
سرفراز کے  پاس پیسے زیادہ نہ تھے، مناسب سمجھا یہ کام کر لیا جاۓ، گھر والے کو کیوں زحمت دوں، سسرال والوں سے مانگوں، اس سے بہتر و مناسب ہوگا کہ کچھ کما کر اپنی ضرورت پوری کی جاۓ۔ اسی وقت سرفراز کا موبائل رنگ ہوتا ہے، اسکی بیوی نازیہ کا فون تھا۔
السلام علیکم، سرفراز اپنی بات سلام سے شروع کرتا، اور سلام میں پہل کرتا تھا، فون پہ ساری باتیں بیتے گزرے دنوں کی  نازیہ کو بتایا کرتا تھا۔
سرفراز: نازیہ ایک بات بتاؤں!
نازیہ: کیا ہے؟  کچھ میرے لۓ خرید رہے ہیں کیا؟
 سرفراز: بس عورت کا دماغ یہی ہوتا ہے۔
نازیہ:  اچھا بتایۓ!
 سرفراز: میں کل کیٹرینگ کے کام میں جارہاہوں
نازیہ: یہ کون سا کام ہے؟
 سرفراز: یہ کام پاڑٹیوں میں کھانا کھلانے کا ہوتا ہے۔ کھانا پینا اچھا ہوتا ہے، کچھ انکم ہوجاۓ گا۔
نازیہ: اچھا جایۓ ۔
سرفراز اپنی بیوی سے فون پہ بہت لمبی گفتگو کیا کرتا تھا، دوست لوگ  یہ گفتگو سنا کرتے تھے۔ کوئی کبھی سرفراز سے مذاق بھی کر لیا کرتا تھا۔
سرفراز کے علاقے کا ایک دوست زاہد بھی تھا، جسکی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ سرفراز کو بولا کرتا تھا، یار کم باتیں کیا کر۔ سرفراز جواب لگانے میں دیر نہیں کرتا  تھا: اچھا بیٹا جب شادی ہوجاۓ گی تو پتہ چلے گا۔
زاہد کا  ایک دوست تھا، وہ یہ باتیں سننے کے بعد سرفراز کو کنارے ہونے پہ بولتا ہے، زاہد! میں نے بھی یہ نوٹس کیا ہے، کبھی بھی اسکی بیوی کا فون آجاتا اور لمبی گفتگو ہوتی، انسان کو چاہۓ مناسب وقت میں فون کرے، ضروری ہو تب ہی فون کرے، غیر مناسب وقت میں فون نہ کیا جاۓ۔
زابد: صحیح یار، ایسا ہی ہونا چاہیے۔
ایک دن سرفراز انترویو سے مسافرخانہ پہنچتا ہے، اسی وقت  نازیہ کا فون آجاتا ہے، سرفراز اپنے انداز میں باتیں شروع کردیتا ہے۔ ساری بات انٹرویو کی بتاتا  ہے۔
نازیہ بولتی ہے، ایک بات بتاؤں!
 سرفراز:  بتاؤ!
 نازیہ: آپ کیوں نہیں مچھلی پالنے کا کام کرتے ہیں، میرے بھیا کیسے یہ کرتے ہیں، آپ ادھر ادھر مارے پھر رہے ہیں!  اس بات پہ سرفراز کو تیز غصہ آتا ہے، تم کیا بات کرتی ہو، تمہارا بھیا جاہل! کیا میں بھی جاہل ہوں، کتنا تمہارا بھائی مچھلی میں کما لیتا ہے۔ ٹھیک سے بات کیا کرو، کیوں بولی مارا پھیرا چل رہے ہیں۔ کام سبھی ڈھونڈ تے ہیں، فلمی ستارے بھی کام کی تلاش میں رہتے ہیں۔ میرا  گھر بھی ہے، بیوی بھی ہے، میں نے بی سی اے بھی کر رکھا ہے! خبردار! تم کبھی ایسی بات نہ کرنا!  اور یہ کہہ کر فون کاٹ دیتا ہے۔
اب سرفراز کچھ دن بیوی سے بات کرنا بند کردیتا ہے۔ 
سرفراز ایک شام زابد کے ساتھ چہل قدمی کے لۓ باہر نکلتا ہے، زاہد پوچھتا ہے، یار کیا بات ہے؟ آج کل تمہاری وائف کا فون نہیں آرہا؟
سرفراز: ہاں  بیوی کو سنایی کیا ہوں۔
 زابد : اچھا ! کیا ہوا ؟
سرفراز باتیں کرتا ہے، دیکھو یار! ہملوگ کام کی تلاش میں ہیں، میں کتنے ٹینشن میں رہتا ہوں، ایسے میں بیوی میری شان میں نامناسب جملہ استعمال کرے تو کیسا لگے گا۔
ایسی ہی کچھ باتیں ہوگئی ہیں۔ ٹھیک ہے، آج رات میں بات کرلوں گا۔
یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ سرفراز کا موبایل رنگ ہوتا ہے۔
 یار!  وائف کا فون ہے۔
 زابد: بات کر لے۔
سرفراز: السلام علیکم۔
 نازیہ:  وعلیکم السلام
 سرفراز:  نازیہ! کیا بات ہے؟ کیوں رورہی ہو! ؟ اچھا کوئی بات نہیں! نازیہ کیا بتاؤں، دل پہ کیا گزر رہا ہے، ایسے وقت میں مجھے باہر جانا پڑ رہا ہے، میں تو چاہتا ہوں ،گھر پہ رہوں لیکن کیا کرسکتا ہوں، باہر جانا ضروری ہے۔ اپنے ملک میں مناسب کام مل پاتا ہی نہیں۔
نازیہ :  کوئی بات نہیں، آپ انٹرویو دیں۔ انشاءاللہ اس بار اچھا ہوگا۔
سرفراز: نازیہ !  دیکھو،  میرے کچھ دوست روس جارہے ہیں، وہاں اچھی سیلری ملتی ہے، لیکن سب لوگ رہ نہیں پاتے، زندگی بہت مشکل ہوتی ہے، سرد جگہ ہے۔ برف جمی رہتی ہے۔ مجھے لوگ بولے، سیلکشن بھی آسانی سے ہوتا ہے۔
نازیہ: آپ سعودی کے لۓ کوشش کریں۔
سرفراز:  ہاں! اسی وقت زابد وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اب سرفراز باتیں کرنا بند کر دیتا ہے۔
زابد: کیا بات ہے سرفراز بھائی؟
کوئی بات نہیں، سسرال والوں سے باتیں ہو رہی تھیں، روس کی جاب جو ہے، اس کا مشورہ نہیں دیتے ہیں۔
دیکھتے ہیں، کل کیا ہوتا ہے، سعودی کا انترویو ہے۔
زابد:  امبے کنسلٹنسی نہیں گۓ، یہاں سی۔وی جمع کرلیتے ہیں، مناسب کام آنے پر کال کرتے ہیں۔ تھوڑا آفس چارج زیادہ ہوتا ہے، لیکن کام ہو جاتا ہے۔    
سرفراز: اچھا کل کے بعد چلتے ہیں  امبےکنسلٹنسی، سی۔ وی جمع کردیتے ہیں۔
زاہد : ٹھیک ہے پرسوں چلا جاۓ۔ بات کرتے ہیں امبے سے۔
سرفراز: یار کل بھی تو ہم لوگوں کا انٹرویو ہے، دعا کرو، اچھا ہو! میں کچھ سیلیری پہ کمپرومائز کرسکتا ہوں، پچیس سو سعودی ریال مل جاے تو  اوکے کردوں گا۔۔۔ زابد؛ انشاءاللہ بہتر ہی ہوگا۔ دعا کریں۔ اچھا کل صبح نماز فجر با جماعت پڑھ کردعا کریں گے۔ ناشتہ کے بعد ساتھ انٹرویو کے لۓ نکلیں گے۔
 زاہد:  ہاں! ٹھیک ہے۔
دوسرے دن زابد و سرفراز صبح جلد بیدار ہوتے ہیں، نماز و کتاب سے فارغ ہوکر انٹرویو جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ اور نو بجے تک ممبئ لوکل ٹرین کی مہربانی سے، کنسلٹنسی آفس پہنچ جاتے ہیں، آفس میں ابھی تک کوئی اور انٹرویو کے لۓ نہیں آیا تھا، تعجب ہوا، آفس کھل ہی رہی تھی، اندر جاکر پتہ لگا، کلائنٹ انٹرویو  ہے، سعودی سے کپمنی کا مینجر آچکے ہیں، ہوٹل للیت میں انٹرویو ہوگا۔  اچھا، تب تو اچھا ہے، ہاں آپ لوگ جاۓ۔ گیارہ بجے انٹرویو شروع ہوگا، ہملوگ وہیں پہنچ رہے ہیں۔ بھاری وانٹ ہے۔
سرفراز اور  زاہد کلاینٹ انٹرویو و  بھاری وانٹ سن کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ کمپنی کا مینیجر خود انٹرویو لیتا ہے،  اچھی تنخواہ کے ساتھ سیلکشن ہو سکتا ہے،  اور ویزا  آنے میں دیر نہیں ہوتی ہے۔ آفس  چارج بھی کم ہوتا ہے،  کبھی کبھی بغیر کوئی چارج لۓ فلائٹ کروا دیتے ہیں۔ دونوں دوست اٹو رکشا سے ہوٹل للیت پہنچتے ہیں۔ اب ٹھوڑی دیر میں یہاں اچھے خاصے با صلاحیت نوجوان جمع ہو جاتے ہیں۔
کچھ دیر بعد ایک نوجوان لڑکا جو پوری طرح آفس گیٹ اپ کوٹ ٹائ بلیک شو میں ملبوس تھا۔ انٹرویو روم سے باہر آتا ہے، گڈ مارنگ ٹو ایوری ون،  آپ سبھی اپنا اپنا سی وی ہمیں دیں۔ سبھی کو ایک ایک کرکے انٹرویو کے لۓ بلایا جاۓگا، ہوٹل اور شاپنگ مال کے لۓ وانٹ ہے۔ جو نیا نیا کھلا ہے، آپ لوگ انٹرویو اطمیان سے دیں گے۔
اب سبھی انٹرویو دینے آۓ نوجوان اپنا اپنا  سی وی جمع کر دیتے ہیں۔
سبھوں کی نظریں گھڑی کے سوئیوں پہ تھیں، گیارہ بجنے کی۔ 
انٹرویو شروع ہوتا ہے۔
پہلا نوجوان جو انٹرویو سے فارغ ہو کر باہر آتا ہے، اسکا اکاونٹنٹ میں سیلکشن ہوتا ہے۔ وہ ایم بی اے کرچکا تھا۔ لوگ اس سے سوال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہاں میں اٹھائیس سو ریال سیلری پر اوکے کردیا ہوں۔
دس منٹ انٹرویو چلا۔ انگریزی میں انٹرویو ہوا، جو  ان کا معاون ہے، اس نے اردو ہندی میں بات کی۔ یہ بھی پوچھا  کہ اس سے پہلے والی کمپنی میں تمہاری  تنخواہ کیا تھی؟   میں نے کہا تین ہزار ریال۔
 پرانی جاب ایکشپرینس کی وجہ سے زیادہ  سوال نہیں کۓ۔
میں نے پاسپورٹ جمع کردیا ہے۔ جلد کال کیا جائیگا، چالیس ہزار آفس چارج دینا پڑے گا۔
اب انٹرویو روم سے پیون باہر نکل کر آواز دیتا ہے، مسٹر سرفراز کون ہے، تیار رہے، تیسرے نمبر پہ انٹرویو ہوگا۔ سرفراز جلد فائل ہاتھ میں لیکر نام آنے کا منتظر رہتا ہے۔
انٹرویو کمرے سے آواز آئی، سرفراز؟   
یس، میں ہوں۔  
سرفراز کا انٹرویو دس یا بارہ منٹ کا ہوتا ہے۔ زاہد انتظار میں وہیں تھا۔ سرفراز انٹرویو دینے کے بعد باہر آکر زاہد سے ہاتھ ملاتا ہے! ہوگیا ہے۔ چوبیس سو ریال سیلری لگی۔ پاسپورٹ جمع کردیا ہوں، پرانی کمپپنی کی تنخواہ کیا تھی، یہ بھی پوچھا۔ اب دو روز میں آفس والے کال کریں گے۔ چالیس  ہزار آفس چارج ہے۔ ایگریمنٹ پیپر پہ سائن بھی کروا لیا ہے!
خیر،  رہائش و کھانے کا انتظام بھی کمپنی دے رہی ہے۔
زاہد:  مبارک ہو۔
سرفراز زاہد سے ہاتھ  ملا کرشکریہ کہتا ہے۔
زاہد کا ابھی نمبر نہیں آیا تھا، زاہد ڈپلوما میکنک تھا، پہلے کسی شاپنگ مال میں سیلسمین کا کام وقتی طور پر کرچکا تھا۔
سرفراز زاہد سے مخاطب ہوکر! یار تمہارا بھی ہوجاۓ گا انشاءاللہ۔
ابھی تک زاہد کا نام نہیں آیا تھا۔
اب سرفراز نازیہ  کو فون کرتا ہے۔ السلام علیکم۔
نازیہ:  وعلیکم السلام۔
سرفراز: نازیہ سعودی کے لۓ جو انٹرویو تھا، اس میں ہوگیا ہے!
نازیہ: اچھا!     امی کو بتاتے ہیں،،، کس کام میں ہوا.
 سرفراز:  مچھلی سپلائ کرنا ہے۔
نازیہ:   مذاق کرتے ہیں۔
سرفراز:  کام کام ہوتا ہے، چوبیس سو ریال تنخواہ لگی۔
نازیہ: جھوٹ مت بولیۓ، آفس کا کام ہوگا، جس کام کا انٹرویو دیتےہیں، وہی کام ہوگا نا!
سرفراز: ہاں سہی سمجھی،  طبیعت کیسی ہے؟
نازیہ: ٹھیک ہے۔
سرفراز:   اچھا رات میں بات کرتا ہوں۔ اللہ حافظ!
زاہد انٹرویو کے لۓ منتظر تھا۔ کافی لوگ تھے، شاید بعد ظہرانہ نمبر آۓ۔ جب تک دونوں دوست وہیں باتیں کرتے رہے۔
 کچھ ہی دیر میں زاہد کا نمبرآجاتا ہے، زاہد انٹرویو کے لۓ تیار ہوتا ہے۔ حسب معمول انٹرویو روم میں زاہد کو بلایا گیا۔ دس بارہ منٹ انٹرویو چلتا ہے۔ انٹرویو کے بعد زاہد سرفراز کو بتاتا ہے کہ میں نے پاسپورٹ جمع نہیں کیا ہے، تنخواہ مناسب نہ ہونے کی وجہ سے۔ سیلسمین میں پندرہ سو ریال لگ رہا ہے، میں ڈپلوما میکنک کر رکھا ہے،  اس تنخواہ  پہ اپنی  ڈگری کی مناسبت سے اپنے خاص فیلڈ میں کام مل ہی جاتا ہے، اگر بایئس سو ریال تک ملتا تو اوکے کردیتا۔
سرفراز: انشاءاللہ بہتر ہوگا۔
زاہد: چلتے ہیں باہرکچھ کھاتے پیتے ہیں۔
سرفراز: ہاں!
 دونوں دوست باہر آتے ہیں۔ اور ممبئ کے بھازی پاؤ- بڑے پاؤ اور ناگوری چاۓ سے بھوک مٹاتے ہیں۔
سرفراز: اب چلیں مسافر خانہ، تھک چکے ہیں، نیند آرہی ہے۔
 زاہد:  ہاں یار، لیکن مجھے کب تک ممبئ کے لوکل ٹرینوں میں دھکا کھانا پڑے گا۔
سرفراز: ممبئ کی زندگی لوکل ٹرینوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ایسا مت کہو۔
 زاہد: ہاں یہ تو ہے۔
سرفراز: گھبرانے کی کوئی بات نہیں! دیر آید درست آید۔
زاہد: انشاء اللہ! تلاش میں ہوں اچھی سیلری جاب کی، امید ہے مل  جاۓگی۔
دونوں مسافرخانہ پہنچتے ہیں، سرفراز سے لوگ سوال کرنے لگتے ہیں۔ کیسا انٹرویو رہا بھائی!
سرفراز:اچھا رہا، سعودی کی کمپنی ہے۔ ہوٹل اور مال والے ہیں، ایک مہینہ میں فلائٹ ہوجاۓ گی۔  پاسپورٹ جمع کردیا ہوں۔
مبارک ہو! سبھوں نے سرفراز کے لۓ نیک خواہشات ظاہر کیں۔
ان میں سے کسی نے ایسے خوشگوار موقع پہ ہلکی سی چٹکی لی۔ ہاں! اب آپ مچھلی پالن نہیں کر پائیں گے!  سبھی ہنسنے لگے۔
شام میں سرفراز اپنے گھر اور سسرال والوں سے باتیں کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے۔ ساٹھ ہزار روپیے کی ضرورت ہے۔ دس ہزار میڈیکل میں، چالیس ہزار آفس چارج اور دس ہزار کچھ خریداری کرنا ہے ۔
دوسرے دن آفس سے سرفراز کے پاس فون آتا ہے۔ آپ آجائیں، کل دس بجے تک، میڈیکل کرانا ہوگا۔ اور ایک ہفتہ کے اندر آپ آفس چارج بھی جمع کردیں۔
  سرفراز:  اوکے میڈم۔
یہ سب سرفراز گھر پہ اپنے والد اور سسرال والوں کو بتاتا ہے۔
 والد صاحب بولے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے بیٹا! کسی سے بات کرتا ہوں، شاید قرض مل جاۓ۔
سرفراز: ابا آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں انتظام کرلوں گا۔ صرف آپ دعا کیجۓ گا۔
یہ باتیں ختم ہوئی ہی تھیں کہ نازیہ کا فون آتا ہے، السلام وعلیکم!
ابو نے بھیا سے بات کی۔ ابھی تالاب سے مچھلی نکل رہا ہے۔ اس بار مچھلی میں منافع  اچھا ہو رہا ہے، مچھلی کی قیمت بھی بڑھی ہے، اور مچھلی بڑی سائز میں نکل رہی ہے۔
بھیا آپ کو گھر آنے بول رہے ہیں، سعودی جانے سے پہلے ملاقات بات بھی ہو جاۓ گی۔  پیسہ بھی لے لیجۓ گا۔
سرفراز جواب دیتا ہے۔ شکریہ بھائی جان کا، کب تک واپس کرنا ہوگا ہمیں یہ پیسے؟
 نازیہ بتاتی ہے، انکو  پیسے کی ضرورت جولائی میں ہوگی مچھلی کے دانے لیتے وقت، ابھی تو مارچ ہے۔
سرفراز: ہاں! سعودی جانے کے بعد میں وقت پہ پیسہ واپس کردوں گا، انشاء اللہ!
لیکن میں گھر نہیں آسکتا، میڈیکل کرانا ہے۔ دعا کیجۓ میڈیکل اچھا ہو۔
کل یا پرسوں بھیا کو بولو جو بھی پیسے میرے اکاونٹ میں ہیں، ڈال دیں۔
نازیہ: اچھا میں بھیا سے بات کرتی ہوں۔
سرفراز: اچھا ابھی بھیا  گھر پہ ہیں تو فون دو۔،،، ہاں اس وقت گھر پہ ہیں، آپ انکے نمبر پہ بات کر لیں۔
سرفراز:  اچھا۔
سرفراز اپنے سالا صاحب کو فون کرتا ہے۔
 میں سرفراز ہوں، السلام علیکم بھائی جان! آپ خیریت سے ہیں؟
 ہاں سب ٹھیک ہے۔
سرفراز: میں گھر نہیں آپاؤں گا، ایک مہینہ کے اندر فلائٹ ہوجاۓ گی۔،،،، اچھا! اپنا اکاونٹ نمبر دیجۓ، کل تیس ہزار روپے اکاونٹ میں ڈال دیتا ہوں اور باقی تیس ہزار ایک ہفتہ میں بھیج دوں گا۔
سرفراز: شکریہ آپ کا، اپنا خیال رکھۓ گا۔
دوسرے دن سرفراز آفس پہنچتا ہے۔ میڈیکل کرانے کی سلیپ ملتی ہے، آج میڈیکل کروانا ہے، کل رپورٹ  ای۔میل سے مرے پاس آجاے گی۔ 
چالیس ہزار ایک ہفتہ میں جمع کردیجۓگا۔ سرفراز اب اے ٹی ایم  سے پیسے نکال کر میڈیکل کے لۓ جاتا ہے۔
 سرفراز ڈر رہا تھا کہ شاید میڈیکل رپورٹ میں کچھ  کمی نکل آئی تو پھر میں مشکل میں پڑجاؤں گا۔ راستے میں ناریل پانی پی لیتا ہے، کسی نے اسے بتایا تھا کہ میڈیکل سے پہلے ناریل پانی پی لینا چاہۓ۔ بہت فائدے ہیں، پیٹ صاف ہوجاتا ہے، میڈیکل رپورٹ اچھی آتی ہے۔
دوسرے دن سرفراز کی میڈکل رپورٹ میل سے آفس پہنچ جاتی ہے۔ سرفراز کے پاس بھی میل آتا ہے، جس میں مثبت رپورٹ ہوتی ہے۔ آفس سے فون آتا ہے، آفس چارج اسی ہفتہ جمع کردیں۔ اول ہفتہ اپریل میں آپکی فلائٹ ہو جائیگی۔ روانگی فائل آپ  کی تیار ہو رہی ہے۔
سرفراز : اوکے سر۔
سرفراز ساری باتیں اپنے والدین اور سسرال والوں کو بتا رہا تھا، نازیہ کی خیریت دریافت کرنا بھی ضروری تھا، اسے معلوم تھا، زچگی کا آخری ماہ ہے۔ ڈاکٹر اپریل کا پہلا ہفتہ بتا چکا تھا۔  
اپریل پہلا ہفتہ سرفراز کے لئے بڑا ہی اہم ہوچکا تھا۔
اسی شام سرفراز کو بھائی جان یعنی سالا صاحب کا کال آتا ہے؛ میں آج تیس ہزار روپۓ آپ کے اکاونٹ میں ڈال چکا ہوں۔ چیک کرلیں گے، اچھا! کل آفس جاکر افس چارج جمع کردیتا ہوں۔
سرفراز منگل کو آفس جاکر آفس چارج جمع کر دیتا ہے۔  آفس والے بتایا، ٹکٹ ہوتے ہی آپ کو خبر کردوں گا۔
سرفراز ان دنوں کشمکش میں رہتا تھا۔ باپ بننے والا تھا، بیوی بچہ کو دیکھنے کی بھی تمنا تھی، خوشبختی کہیں یا  بد بختی! اسی ہفتہ فلائٹ بھی ہونا تھی۔
بدھ کا دن تھا، گیارہ بجے سرفراز دوستوں کےساتھ باتیں کررہا تھا۔ آفس سے فون آتا ہے، آپ آکے اپنی روانگی فائل لے لیں، دو اپریل گیارہ بجے رات میں آپ کی پرواز ہے۔ سرفراز افس پہنچتا ہے اور اپنی فائل لے کر مسافر خانہ پہنچتا ہے، اور تیاری شروع کر دیتا ہے۔
 فون کرکے سبھوں کو بتا دیتا ہے، دو اپریل کو فلائٹ ہے، ساری تیاری ہو چکی ہے۔ ایسے وقت ہمیں جانا پڑ رہا ہے۔   
نازیہ کے والدین سرفراز کو ہمت دیتے ہیں، سب کچھ ٹھیک ہے، نازیہ کو سہی وقت پہ ہملوگ ہوسپیٹل لے جائیں گے۔ گبھرانے کی کوئی بات نہیں۔
سرفراز ساری تیاری کر لیتا ہے، دو اپریل بدھ کا دن تھا۔ زاہد اور فرحان ایئرپورٹ جانے کے لۓ تیار تھے۔
بدھ دو اپریل شام چھ بجے سرفراز اپنے دوست زاہد اور فرحان کے  ساتھ ایئرپورٹ روانہ ہو تے ہیں۔ سرفراز ان دنوں باتیں کم کررہا تھا۔ شاید اپنوں سے دور ہونے کا سبب ہو، یا باپ بننے والا تھا، جس کا بھی احساس ہو۔
شام آٹھ بجے ممبئ ایئرپورٹ پہنچ جاتے ہیں۔ سرفراز اپنے دوستوں سے کچھ دیر ایئرپورٹ کے باہر باتیں کرتا رہتا ہے۔ اسی وقت نازیہ کے موبایل نمبر سے فون آتا ہے۔
سرفراز گھبرا تے ہوۓ سلام کرتا ہے، ہاں ابو! سب خیریت ہے؟
ابو: آپ کہاں ہیں،
 سرفراز: ابھی ابھی ایئرپورٹ پہنچا ہوں۔
ابو: اچھا! گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہملوگ ہاسپیٹل میں ہیں، صبح ہی نازیہ کو لیکر آۓ تھے۔ دیکھۓ!  ڈاکٹر بتایا ہے، شاید آپریشن کرنا پڑے، پہلے کوشش کی جاۓ گی نورمل بچہ تولد ہو۔ آپ فکر نہ کریں۔ سب کچھ انشاءاللہ ٹھیک ہوگا۔ آپ  کو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
سرفراز اپنے دوستوں سے یہ ساری باتیں بتاتا ہے۔
 زاہد: ارے یار! ڈاکٹر آج کل آپریشن کرہی دیتے۔ اس سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ آپ اب ایئرپورٹ کے اندر داخل ہو جائیں، ساڑھے اٹھ  ہو چکے ہیں۔
ایسے موقع پہ انسان اپنے نفس پہ قابو نہیں رکھ پاتے ہیں۔ سرفراز کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ اب سرفراز پاسپورٹ اور ٹکٹ باہر نکال کر اپنے لوگیج کے ساتھ ایئرپورٹ کے دروازہ پہ ہوتے ہیں۔ ،،،، سرفراز زاہد اور ریحان سے خدا حافظی گلے ملنا چاہتا ہے۔ عین اسی موقع  پھر سرفراز کا موبایل رنگ ہوتا ہے۔ سالا صاحب کا نمبر تھا۔
 زاہد: بات کر لیجۓ اچھی ہی خبر ہوگی۔
 سرفراز: سلام بھائی جان، وعلیکم السلام،،، لیجۓ امی سے بات کیجۓ۔
 امی بتاتی ہیں، لڑکا تولد ہوا، نورمل ہی ہوا۔
اب سرفراز کی آنکھیں بھر جاتی ہیں، زاہد اور فرحان جلد سرفراز کا پاسپوڑت اور ٹکٹ ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں، باپ بننے پر مبارک باد دیتے ہیں۔ گلے ملتے ہیں۔
 سرفراز ایئرپورٹ میں داخل ہوجاتا ہے، محبت بھری نگاہوں سے زاہد و فرحان کی طرف دیکھتے سہمے سہمے قدموں سے، آنکھوں میں آنسو لۓ آگے بڑھتا جاتا ہے۔
اور کچھ آنسوؤں کی بوندیں زمیں پہ بھی ٹپک جاتی ہیں۔ یہ کوئی نہ بتا پاۓ!   سرفراز کے ان آنسوؤں کی بوندوں میں کون سی  بوند خوشی  کی تھی اور کون سی بوند  اپنوں سے دور ہونے کی! 

 نظر عرفان