گلاب
اےگلاب!
تری زندگی
عجیب بھی ،غریب بھی
تری تعریف میں کہا کیا جاۓ
گر چہ تو خار و خش میں پلتا ہے
تو ہنستا ہے، ہنساتا ہے، مسکراتا ہے
تم سے شکایت بھی ہے محبت بھی ہے
ترا تصور محبت
ترا خیال خوشی
تجھے دیکھوں تو دل
شرسار
تجھ سے انسانیت کی بقا
ترے سہارے انسان زندگی جیتا ہے
تو نےکتنوں کوزندگی
بخشی
لیکن تجھ سے شکایت ہے
تو نے کتنوں کا دل توڑا ہے
اور تو قاتل بھی ہے
تری نازک پنکھڑی میں جو تراش ہے
دل نرم ونازک پہ جو اثر کرتی ہے
پرتری تراش کہاں دکھتی ہے
دل سنگ کو تجھ سے ڈر رہتا ہے
تو محبت کا استعارہ بن کر جیتا ہے
تو اک سوغات بھی ہے
ترے ھزار روپ
تو ملکہ بن کر ،محفل
کا روح رواں بھی ہوتا ہے
تو عداوت کو محبت میں بدل دیتا ہے
تری تاریخ بھی قدیم ہے
اور تو ھزار رنگوں
میں ہے
اےگلاب! ترے بغیر
شاعری ممکن نہیں
تو شاعروں کا ساماں بھی ہے
تری خوبیوں کی تعریف کیسے کروں
تو کتنے رنگوں میں کتنی اداؤں میں ہے
پر تری خوشبوؤں میں فرق
نہیں
اے گلاب !تو بڑی جلد
روٹھ جاتا ہے
اے گلاب، ذرا
غنچہسے چٹک کر
مسکرا دے، ہنس دے
ہاں! ذرا ہنس دے
نظر عرفان